ایرانی صدر تو منتخب ہوگئے، مسعود پزشکیان کیا ڈلیور کر پائیں گے؟

  

ایرانی صدر تو منتخب ہوگئے، مسعود پزشکیان کیا ڈلیور کر پائیں گے؟


تعارف

ایران میں ہر صدارتی انتخاب کے موقع پر ایک سوال ضرور ذہنوں میں پنپتا ہے۔ یہ کہ کیا اب ایران میں کوئی حقیقی، بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ گزشتہ ماہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی رحلت کے بعد قبل از وقت صدارتی انتخاب کے موقع پر پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا۔

نومنتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان اصلاح پسند ہیں یعنی رجعت پسند مذہبی قیادت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے میں لوگ بوجوہ شکوک میں بھی مبتلا ہیں۔ ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ وہ امید کی کرن ہیں یا محض اسٹیبلشمنٹ کی کوئی نئی چال۔




مسعود پزشکیان کا پس منظر

تعلیم و پیشہ ورانہ زندگی

مسعود پزشکیان ایران کے علاقے ماہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ آرمیا میں ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے تبریز یونیورسٹی سے طب کی تعلیم لی تھی۔ وہ دل کے معالج (سرجن) ہیں اور وزیرِ صحت رہ چکے ہیں۔

سیاسی کیریئر

پانچ بار ایرانی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے علاوہ وہ نائب صدر کے منصب پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کے سیاسی کیریئر میں مختلف اہم عہدے شامل ہیں۔

اصلاحات کی جانب مسعود پزشکیان کا رجحان

مذہبی قیادت سے اختلافات

مسعود پزشکیان اصلاح پسند ہیں اور مذہبی قیادت سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ خواتین کو حجاب کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے والی اخلاقی پولیس کو غیر اخلاقی قرار دے چکے ہیں۔

خواتین کے حقوق کی حمایت

وہ ڈریس کوڈ کے حوالے سے اپنایا جانے والا رویہ کسی طور درست نہیں سمجھتے کیونکہ مذہب لباس کے معاملے میں ایسی سختی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سے ان کی خواتین کے حقوق کی حمایت ظاہر ہوتی ہے۔

معیشت کی بحالی کے وعدے

اقتصادی چیلنجز

ایرانی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا مسعود پزشکیان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اقتصادی مشکلات، بیروزگاری، اور غربت جیسے مسائل ان کے سامنے ہیں۔

غربت کے خاتمے کے اقدامات

وہ معیشت کی بحالی کے لیے مختلف اہم ایشوز پر گفت و شنید کی بات کر چکے ہیں اور غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کی بہتری

مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات

مسعود پزشکیان مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر ایران کی تصویر کو بہتر بنانے کے خواہاں ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی صورتحال

ایران کی مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ان کا کیا کردار ہوگا، یہ بھی دیکھنا باقی ہے۔ ان کی حکمت عملی اہم ہوگی۔

ایرانی عوام کی توقعات

نئی نسل کی خواہشات

ایران کی نئی نسل قدامت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ وہ حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اس بار انتخابی عمل کو نظریاتی معرکہ آرائی کے روپ میں دیکھا گیا۔

متوسط طبقے کی امیدیں

متوسط طبقہ بھی یہی چاہتا ہے کہ ملک میں حقیقی تبدیلی آئے اور ان کی زندگی میں بہتری ہو۔

سابق صدور اور مشیران کی حمایت

حسن روحانی کی حمایت

مسعود پزشکیان کو دو سابق صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔

جواد ظریف کی رائے

سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ ان کی حمایت سے مسعود پزشکیان کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا کردار

انتخابی عمل میں مداخلت

عام خیال یہ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے گی۔ دو امیدواروں کے انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانے کو بھی اِسی تناظر میں دیکھا گیا۔

دو امیدواروں کی دستبرداری

اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عوام میں بھی اس حوالے سے مایوسی ہے۔

ٹرن آؤٹ کے مسائل

عوامی بیزاری

ایران میں صدارتی انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کے بہت کم ہونے کی شکایت رہی ہے۔ عوام انتخابی عمل سے بیزار ہیں اور ووٹ ڈالنے سے کترانے کا رجحان بھی نمایاں ہے۔

علی خامنہ ای کی اپیل

سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے عوام سے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں تاکہ انتخابی عمل میں شفافیت برقرار رہے۔

ماضی کے اصلاح پسندوں کا کارنامہ

وعدوں کی ناکامی

ماضی میں اصلاح پسندوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جس کی وجہ سے عوام میں مجموعی طور پر مایوسی پائی جاتی ہے۔

مہسا امینی کیس کا اثر

2022 میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ہنگامے پھوٹ پرے تھے۔ اس سے عوام اور ریاستی مشینری کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی تھی۔

مسعود پزشکیان کے چیلنجز

معیشت کی بہتری

مسعود پزشکیان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایرانی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا ہوگا۔ اقتصادی بحران اور غربت جیسے مسائل ان کے سامنے ہیں۔

No comments:

Powered by Blogger.